ابتدائیہ
زبان اظہار خیال کا آلہ ہے ۔ اللہ تعالی نے ہمیں بولنے کی طاقت دی ہے جس کی بدولت ہم ایک دوسرے سے اپنے دل کی بات کہہ سکتے ہیں اور اپنا مطلب سمجھا سکتے ہیں ۔ اظہار خیال کے لیے تجزیاتی مطالعہ کافی نہیں ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ الفاظ کے معنی جملوں کی ترکیب اور ان کا باہمی تعلق اچھی طرح سمجھ لیا جا ئے ۔ زبان ایک مرکب ہے ۔ اس کے بھی ترکیبی اجزاء وعناصر ہیں ۔ کچھ اصول اور قواعد ہیں ۔ جو ترکیبی أجزا کے ملاپ میں ان کی مدد کرتے ہیں ۔ زبان کی نحو کا دارو مدار ان قاعدوں پر ہے ۔ ان قواعد کا زبان سے و ہی تعلق ہے جو لفظ کا معنی سے ہے ۔ لفظ معنی کے ساتھ وجود میں آتا ہے ۔۔گرامر بھی زبان کے ساتھ ساتھ وجود میں آتی ہے ۔ لہذا زبان کے عام اور مستقل اصول وضوابط کو انگریزی میں گرامر اور اردو میں قواعد کا نام دیا جاتا ہے ۔قواعد اردو
اردو قواعد کے تین حصے ہیں ۔ علم ہجاء، علم صرف ، علم نحو
علمِ ہجا: یہ سادہ آوازوں ، ان کے تحریری نقول یا علامتوں پرمشتمل ہوتا ہے ۔ جب سادہ آوازیں یا حروف تحریر میں آتے ہیں تو حروف تہجی یاعلم ہجا کہلاتے ہیں ۔
علمِ صرف : لغت میں صرف بدلنے اور ہیر پھیر کرنے کو کہتے ہیں ۔ اس علم کا تعلق الفاظ سے ہوتا ہے اور علم صرف ہمیں بتاتا ہے کہ یہ تبدیلی کس طرح ہوئی ، اور اس تبدیلی کے بعد کیا معنی ہوئے اور انھیں کہاں استعمال کرنا چاہیے اور کہاں نہیں اس علم کا مقصد یہ ہے کہ بولنے والا صحیح بولے ۔
علم نحو : یہ وہ علم ہے جس میں کلموں کی باہمی ترتیب اور تعلق کا حال معلوم ہوتا ہے ۔ اس کی غرض و غایت یہ ہے کہ لکھنے والا اور بولنے والا کلموں کے بنانے میں غلطی نہ کرے ۔ ہر ایک کلمہ کو صیح ترتیب کے ساتھ اپنے محل پر جگہ دے ۔ اس میں کلام سے بحث ہوتی
ہے ۔ اس لیے اس کا موضوع کلام ہے ۔
لفظ موضوع
ایسے با معنی آوازیں جس سے ایک معنی یا ایک ساتھ کٔی معنی سمجھے جاسکتے ہوں تو یہ لفظ موضوع کہلاتی ہیں ۔ مثلاً کھانا ۔ آنا ۔ چاند ۔ نیک ، عبادت ، عابد و مکان وغیرہ ۔
لفظ موضوع کے دو اقسام ہیں ؛
کلمه اور کلام :
لفظ موضوع سے اگر اکیلے معنی سمجھ میں آ جائیں تو اسے کلمہ کہتے ہیں ۔
مثلاً میدان ، نیک آدمی . شرارتی لڑکے , سست آدمی اور اس قسم کے اور الفاظ جن کے اجزاء ایک سے زیادہ ہیں ۔ اگرچہ بجائے خود ہر ایک جز کے جدا گانہ معنی ہیں مگر بحالت ترکیب چونکہ ان سے ایک معنی سمجھے جاتے ہیں اس لیے ہر ایک لفظ کلمہ ہے ۔ کلمہ کا لفظاً ایک ہونا ضروری نہیں اس لیے ہرکلمہ کو لفظ کہہ سکتے ہیں ، لیکن ہرلفظ کو کلمہ نہیں کہ سکتے ۔ علم صَرف میں صرف کلمے پر بحث ہوتی ہے ۔
۔ کلام : کوئی بھی جملہ یا لفظوں کا ایسا مجموعہ جس سے مطلب صاف طور پر سمجھ آجائے کلام کہلاتا ہے ۔ مثلاً : ۔ رمضان المبارک با برکت مہینہ ہے ۔ ہر مسلمان پر نماز فرض ہے ۔ کلام کا تعلق علم خور سے ہے ۔
( 2 ) لفظ مہمل - بے معنی لفظ کو مہمل کہتے ہیں ۔ مثلا : ۔ چوری چکاری ، غلط سلط ۔ ٹھیک ٹھاک ، میل کچیل ۔ قواعد اردو میں صرف لفظ موضوع پر بحث کی جاتی ہے ۔ لفظ مہمل کا قواعد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔
کلمہ اور مہمل کی چند مثالیں
الٹا پلٹا ، چاے واے ، ٹھیک ٹھاک ، بھیڑ بھاڑ ، پانی وانی ، جھوٹ موٹ ، ڈھول ڈھمکا ، شیر ویر ، گول مٹول ، سچ مچ ، ہاتھی واتی ، غلط سلط
1 Comments
Mashallah mashallah mashallah
ReplyDelete